پُر امن خاندان: صالح معاشرے کا سنگِ بنیاد

ایک پرسکون اور خوشگوار خاندان فرد کے لیے سب سے بڑی نعمت اور امن و سکون کا سب سے مضبوط قلعہ ہوتا ہے۔ یہ محبت، اعتماد، اور باہمی احترام پر مبنی ایک ایسا دائرہ ہے جہاں ہر فرد کو جذباتی سکون، ذہنی استحکام اور عملی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ جب انسان کو اپنے خاندان کی طرف سے محبت، حوصلہ افزائی اور حمایت ملتی ہے تو وہ زندگی کے دباؤ اور چیلنجز کا بہتر طریقے سے سامنا کر پاتا ہے۔ خاندانی رشتے ہمیں اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ زندگی کی دوڑ میں ہم اکیلے نہیں ہیں، ہمارے مسائل کو سننے، سمجھنے اور حل کرنے والے موجود ہیں۔ ایک مستحکم اور مودّت سے پُر خاندان ہمیں روزمرہ کے تناؤ سے نجات دلا کر اندرونی اطمینان بخشتا ہے، جس سے نہ صرف فرد بلکہ پورے معاشرے میں سکون اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔

ایک بہتر خاندان نہ صرف فرد کو جذباتی اور ذہنی تحفظ فراہم کرتا ہے، بلکہ اس کے لیے زندگی میں نئی راہیں بھی کھولتا ہے۔ ایک ایسا گھر جہاں تعلیم، تقویٰ، اخلاقیات اور مثبت طرزِ فکر کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہو، وہ افراد کو اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ جب ایک فرد کو اپنے خاندان کی جانب سے حوصلہ افزائی، اخلاقی تربیت اور مواقع فراہم کیے جاتے ہیں تو وہ اپنی صلاحیتوں کو بہترین انداز میں بروئے کار لا سکتا ہے۔ نتیجتاً، ایک مضبوط خاندانی نظام ایک ایسے متوازن اور کامیاب معاشرے کی بنیاد رکھتا ہے جہاں ہر فرد اپنی صلاحیتوں کو نکھار کر معاشرتی ترقی میں مثبت کردار ادا کرتا ہے۔ 

مگر سرمایہ داری کی لالچی فطرت نے خاندانی نظام کو اور اس سے جڑی سماجی اقدار کو شدید نقصان پہونچایا ہے، کیونکہ اس نظام کی بنیاد زیادہ سے زیادہ منافع کمانے اور consumers کو مسلسل خرچ کرنے پر مجبور کرنے پر رکھی گئی ہے۔ جدید market-economy نے brand-culture کو فروغ دے کر افراد کو اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ وہ اپنی ضروریات سے زیادہ خوہشات کے پیچھے دوڑیں، جس سے خاندانی رشتے پسِ پشت چلے گئے ہیں۔ آج لوگ خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کے بجائے مہنگے فیشن، لگزری اشیاء اور سوشل میڈیا پر اپنی ایمیج بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ Capitalism کے اس ماڈل نے لوگوں کو یہ یقین دلایا ہے کہ خوشی اور کامیابی کا دار و مدار قیمتی اشیاء کے حصول پر ہے، جس کی وجہ سے خاندان کے افراد کے درمیان محبت، قربانی اور ایک دوسرے کی ضروریات کو سمجھنے کی روایات کمزور پڑ گئی ہیں۔

اس کے علاوہ اشتہاری صنعت اور Corporate-marketing نے والدین اور بچوں کے درمیان ایک نیا خلا پیدا کر دیا ہے، جہاں والدین اپنی مصروفیات میں اور بچے اسکرینز اور برانڈز کی دنیا میں کھو گئے ہیں۔ نتیجتاً، ایک ایسا معاشرہ تشکیل پا رہا ہے جہاں افراد خود غرضی، مادہ پرستی اور لامحدود خواہشات کے غلام بن کر رہ گئے ہیں، جبکہ خاندانی اقدار، محبت، ایثار اور سادگی جیسی خوبیاں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔

مزید برآں، Feminism کی جدید تحریک نے مساوات کے نام پر خاندانی نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے، کیونکہ اس نے مرد و زن کے درمیان محبت اور تعاون کے رشتے کو مقابلے اور تصادم میں بدل دیا ہے۔ روایتی طور پر شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے معاون اور ایک دوسرے کے وجود کی تکمیل کرنے والے تھے، لیکن Feminism نے اس تعلق کو قوت کی جنگ میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس تحریک کے زیرِ اثر خواتین کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ اگر وہ گھریلو زندگی کو اہمیت دیں گی تو یہ ان کی آزادی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوگا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ خاندان ایک عورت کی فطری محبت، رحمت اور نگہداشت کے بغیر نامکمل ہے۔ اس نظریے نے ازدواجی زندگی میں ایسی مستقل نوعیت کی دوریاں اور اختلافات پیدا کر دیے ہیں جنہیں مٹانا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ شوہر اور بیوی جو پہلے ایک دوسرے کے لیے قربانی دینے اور محبت بانٹنے والے رفقاء تھے، اب انہیں ایک دوسرے کا حریف بنا دیا گیا ہے، جس سے خاندان میں سکون اور محبت کی فضا ناپید ہو گئی ہے۔ 

اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ Feminism کے اس انتہا پسندانہ رویے نے عورتوں کو حقوق اور احترام دلانے کے بجائے ان کی فطری اور سماجی مقام کو مجروح کر دیا ہے۔ ایک عورت کی اصل طاقت اس کی عزت، وقار اور محبت کرنے والی اس کی فطرت میں ہے، لیکن Feminism نے اسے اس کی فطری ذمہ داریوں س بیزار کر کے ایک ایسی زندگی کی طرف دھکیل دیا ہے جہاں وہ خاندان سے کٹ کر معاشی دوڑ میں تنہا اور بے سکون ہو چکی ہے۔ ازدواجی زندگی کو قوت حاصل کرنے کے کھیل میں تبدیل کرنے سے نہ صرف خاندانی نظام کمزور ہوا ہے بلکہ بچوں کی صحیح تربیت اور والدین کے درمیان محبت و احترام کی روایت بھی معدوم ہو گئی ہے۔ جبکہ مرد و زن کا رشتہ محبت، رحمت اور تعاون پر مبنی ہونا چاہیے، نہ کہ مقابلے اور خودغرضی پر۔ حقیقی خاندانی استحکام اسی وقت ممکن ہے جب مرد و عورت ایک دوسرے کے ساتھ محاذ آرائی کے بجائے محبت اور ایثار کے اصولوں پر زندگی گزاریں، تاکہ ایک خوشحال اور متوازن معاشرہ وجود پذیر ہو سکے۔

اسلامی خاندانی نظام ایک ایسا مضبوط اور پائیدار نظام ہے جو محبت، رحمت، انصاف اور حقوق و فرائض کے توازن پر قائم ہے۔ قرآن کریم نے اس کے ہر پہلو پر مکمل رہنمائی فراہم کی ہے تاکہ ایک ایسا مثالی خاندان تشکیل دیا جا سکے جو نہ صرف فرد کی شخصیت کو سنوارے بلکہ معاشرے کے استحکام میں بھی بنیادی کردار ادا کرے۔ قرآن میں خاندانی زندگی کے ہر پہلو کو نہایت حکمت اور اعتدال کے ساتھ واضح کیا گیا ہے، جس میں ازدواجی تعلقات، والدین کی عزت، بچوں کی تربیت، اور رشتہ داریوں کا احترام شامل ہے۔

قرآن کریم کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ ایک کامیاب اور خوشحال خاندان تشکیل دینے کے لیے درج ذیل اصولوں کو رہنما بنانا چاہیے۔ 
(الف) ازدواجی زندگی میں مودّت، برداشت اور باہمی احترام
(ب) والدین کی عزت اور ان کے حقوق کی پاسداری
(ج) بچوں کی اخلاقی اور دینی تربیت
(ہ) رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور حسنِ سلوک
(و) گھریلو زندگی میں انصاف اور عدل کا قیام

(الف) ازدواجی زندگی میں مودّت، برداشت اور باہمی احترام

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ  (سورة الروم، آیت ۲۱)
ترجمہ : اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے بیویاں بنائی تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔

مذکورہ بالا آیت میں سکون، مودّت اور رحمت کے الفاظ قابلِ غور ہیں۔ یہ آیت نکاح کو تقدس فراہم کرتی ہے اور اس پر دلالت کرتی ہے کہ زن و شو کا تعلق محض جسمانی نہیں بلکہ ایک روحانی اور جذباتی تعلق بھی ہے۔ 

یہ آیت ازدواجی رشتے کی بنیادی حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے سکون، محبت اور رحمت کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ 

اسی طرح سورہ البقرة میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ
ترجمہ : وہ تمھارے لیے لباس ہیں، اور تم ان کے لیے۔  

یعنی میاں بیوی ایک دوسرے کے عیبوں پر پردہ ڈالنے والے اور ایک دوسرے کے تحفظ کا ذریعہ ہیں۔ گویا کہ ازدواجی زندگی کی کامیابی کا راز ایک دوسرے کو سمجھنے، عزت دینے اور برداشت کرنے میں ہے۔

قرآن نے اس کے ساتھ ہی خاندان کے سربراہ کا بھی تعین کر دیا ہے تاکہ خاندان کا ادارہ قوت کے حصول کی رسّہ کشی سے محفوظ رہے۔ فرمایہ :

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ (سورة النساء، آیت ۳۴)
ترجمہ : مرد عورتوں پر قوّام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دُوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔

یہ آیت ایک تو یہ بتاتی ہے کہ خاندان کا سربراہ خاوند ہوگا، دوسرے یہ بتاتی ہے کہ گھر کے اخراجات کی ذمہ داری بھی خاوند کی ہوگی۔ گویا کہ خاوند کی authority اور responsibility کو طے کر دیا گیا۔

(ب) والدین کی عزت اور ان کے حقوق کی پاسداری

اسلامی خاندانی نظام میں والدین کا ایک انتہائی معزز اور بلند مقام ہے۔ اللہ رب العزت والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:

وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ﴿٢٣﴾ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ﴿٢٤﴾ (سورہ بنی اسرائیل)
ترجمہ : تیرے ربّ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اُس کی۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس اُن میں سے کوئی ایک یا دونوں بُوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جِھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو۔ اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو، اور دعا کیا کرو کہ "پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح اِنہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا”۔

یہاں پر صرف ایک اللہ کی عبادت کے حکم کے بعد متصلاً والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اس معاملے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ ساتھ والی آیت احسان مندی کے اس جذبے کو ابھارتی ہے جو ہمارے اندر والدین کے احسانات کو یاد کر کے پیدا ہونا چاہیے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ والدین کے بڑھاپے کے ساتھ ”افّ“ کہنے اور جھڑکنے کا تذکرہ آیا ہے۔ کیونکہ بعض اوقات بڑھاپے میں انسان بچوں کی ہی طرح ضدّی اور irritating ہو جاتا ہے۔ اس لحاظ سے بڑھاپے کے تذکرہ کے ساتھ جھڑکیاں دینے سے منع کیا گیا ہے۔ یہ آیت خاندان میں والدین کے مقام کو متعین کرتی ہے اور ان کے ساتھ نرمی، ادب اور احترام کا حکم دیتی ہے، بالخصوص بڑھاپے میں جبکہ وہ کمزور ہو جاتے ہیں۔

والدین کے احسانات کو یاد دلاتے ہوئے قرآن کریم مزید فرماتا ہے:

وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ ﴿١٤﴾ (سورة لقمان)
ترجمہ : اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اُس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھاکر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے ان کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔

یہ آیات اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ والدین کی عزت و احترام اور ان کی خدمت اسلامی خاندانی نظام کی بنیادی اقدار میں شامل ہیں۔ 

(ج) بچوں کی اخلاقی اور دینی تربیت

 نئی نسل کی بہتر تربیت ایک صالح معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ﴿٦﴾ (سورة التحریم) 
ترجمہ : اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاوٴ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، جس پر نہایت تند خُو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہی۔

یہ آیت سربراہِ خاندان سے مخاطب ہے پورے خاندان کی آخرت رخی تربیت کی بات کرتی ہے۔ اس میں والدین کو خاص طور پر تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو نیک اور صالح بنانے کی کوشش کریں تا کہ وہ آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں۔

حضرت لقمان ؑ کی نصیحتوں کا قرآن میں بیان ہے: 

يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ﴿١٧﴾ (سورة لقمان) 
یٹا ، نماز قائم کر، نیکی کا حکم دے، بدی سے منع کر ، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ۔

قرآنِ کریم نے مرد کو خاندان کا سربراہ طے کیا ہے (سورة النساء، آیت ۳۴)۔ اور اس پر نان نفقہ کے ساتھ ساتھ تربیت کی بھی ذمہ دار ڈالی ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا آیات سے واضح ہوتا ہے۔ یہ آیتیں اس بات کی ہدایت دیتی ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو دین، اخلاقیات، صبر اور خیر و شر کی پہچان کی تربیت کریں۔

(ہ) رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور حسنِ سلوک

اسلامی تعلیمات میں صلہ رحمی اور رشتہ داروں کے حقوق کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ سورة النساء میں اللہ ربّ العزت فرماتا ہے:

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ﴿٣٦﴾
ترجمہ : اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناوٴ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاوٴ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آوٴ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے، اور اُن لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے۔ 

اس آیت سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ خاندانی نظام کا استحکام رشتہ داروں کے ساتھ اچھے تعلقات اور حسنِ سلوک پر مبنی ہے۔ اس آیت میں  قرابت دار اور پڑوسی قرابت دار کا الگ الگ اور خصوصیت کے ساتھ تذکرہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اسلام رشتہ داروں کے ساتھ تعلق کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ قطع رحمی (رشتہ داروں سے تعلقات توڑنا) کو اسلام میں سخت ناپسند کیا گیا ہے، اور صلہ رحمی (رشتے جوڑنے) کو نیکی قرار دیا گیا ہے۔ 

(و) گھریلو زندگی میں انصاف اور عدل کا قیام

خاندان کے استحکام اور خوشحالی کے لیے انصاف اور عدل بنیادی عناصر ہیں۔ سورة النساء میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَنْ تَعْدِلُوا ۚ وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ﴿١٣٥﴾
ترجمہ : اے لوگو جو ایمان لائےہو ، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب ، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی پٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔

اس آیت کو علماء نے بالعموم عدل و قسط کے قیام کے باب میں بیان کیا ہے۔ اس آیت سے یہ تعلیم حاصل ہوتی ہے کہ عدل و قسط کے معاملے میں اہل خانہ یا رشتہ داروں کی رعایت نہیں کی جانی چاہیے۔ یہ آیت رشتہ داروں اور خاندان کے افراد کے ساتھ حسنِ سلوک کی حد بندی کرتی ہے۔ 

ساتھ ہی اس آیت سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ہمیں خاندان کے افراد کے درمیان بھی انصاف اور عدل کا معاملہ کرنا چاہیے۔ خاندان کے اندرونی معاملات کو handle کرتے وقت بھی ان حدود کی پابندی لازمی ہے۔ بچوں کے لیے اسکول کے انتخاب سے لے کر جائداد کے بٹوارے تک، سارے معاملات انصاف کے ساتھ طے ہونے چاہیے۔ گھریلو معاملات میں انصاف، محبت، اور دوسروں کے حقوق کا احترام ایک مستحکم اور پر امن خاندانی زندگی کی ضمانت ہے۔

قرآنِ کریم ہمیں ایک ایسے خاندانی نظام کا خاکہ فراہم کرتا ہے جو مودّت، احترام، انصاف اور خیر و برکت پر مبنی ہے، جو کہ ایک پر امن اور صالح معاشرے کی تشکیل کے لیے ناگزیر ہے۔


* قرآنِ کریم کی آیتوں کے اردو ترجمے امام مودودیؒ کی تفسیر تفہیم القرآن سے ماخوذ ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے