اللہ کی مسجدوں کے سلسلے میں مسلمانوں کے انحرافات

۱

اللہ کی مسجدیں اسلامی معاشرت کا مرکز و محور ہوتی ہیں۔ دین میں یہ صرف نماز کی ادائگی کا مقام نہیں بلکہ وہ ادارہ ہے جہاں سے اسلامی تمدن اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے، جہاں ایمان، علم، عدل، مشورہ، اصلاح نفس، اور اجتماعی فلاح و بہبود کے نقش ابھرتے ہیں۔ مسجدِ نبویؐ کا قیام دراصل ایک ایسے ادارے کی بنیاد تھی جو دین کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا تھا — جہاں تعلیم و تربیت، عدل و قضاء، مشاورت و قیادت، عبادت و بندگی، اور اخوت و اخلاص کے مناظر یکجا ہوتے تھے۔ یعنی یہ وہ ادارہ تھا جس نے مسلم معاشرے کو وحدت، مقصدیت اور اجتماعی شعور عطا کیا۔ 

۲

عصرِ حاضر میں اللہ کی مسجدوں کو مخصوص فرقوں اور مسالک سے منسوب کر دینا، ان کے دائرۂ کار کو نماز اور چند رسومات تک محدود کر دینا، اور ان سے دعوت، تعلیم، مشاورت، معاشرتی کردار کو منہا کر دینا، درحقیقت اللہ کی مسجدوں کی جامعیت اور ان کے اصل مشن سے گہرا انحراف ہے۔ اللہ کی مسجدیں عام طور پر اب علم و فکر کا سر چشمہ بننے کے بجائے مسلکی تعصب، گروہی نمائندگی اور فکری جمود کی علامت بن گئی ہیں۔ اس انحراف کی اصلاح ایک دینی فریضہ ہے، اور مسلم معاشرے کی نشاةِ ثانیہ کے لیے ایک ناگزیر اقدام بھی۔

۳

اللہ کی مسجدوں کے تعلق سے ہمارا سب سے بڑا انحراف یہ ہے کہ ہم نے مسجد کے کردار کو محدود کر دیا۔ اسلامی معاشرت کے اس مرکز و محور کو ہم نے نمازوں کی ادائگی تک محدود کر کے رکھ دیا۔ رسول اللہؐ نے مسجد کے نظام کو ریاستی نظم و نسق کا جزو بنایا تھا۔ مسجد کا امام یا تو براہِ راست مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کا سربراہ ہوتا تھا یا اس کا مقرر کردہ نمائندہ، جو شرعی و انتظامی اعتبار سے حکومتی نظم کا مظہر ہوتا تھا۔ جمعہ کے خطبے مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کے سربراہ یا اس کے نمائندے کی جانب سے ادا کئے جاتے تھے، تاکہ ملّت میں وحدت، نظم اور قیادت کا تسلسل برقرار رہے۔ اللہ کی مسجدوں کے سلسلے میں اللہ کے رسول کی یہ سنتیں ہیں۔ بعد میں اللہ کے رسول کے خلفائے راشدین نے بھی ان سنتوں کو اسی طرح قائم رکھا تھا۔

 آج جہاں کا نظمِ اجتماعی مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے، وہاں سنت کے مطابق اللہ کی مسجدوں کو مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کا مرکز  ہونا چاہئے۔ اور جہاں کا نظمِ اجتماعی مسلمانوں کے ہاتھوں میں نہیں ہے وہاں مسلم معاشرے کو چاہئے کہ مسجد کے اس سیاسی کردار کے علاوہ باقی سنتوں کو اسی طرح زندہ رکھیں جیسے دور اولیٰ میں زندہ تھیں۔

مسجدِ نبویؐ اسلامی ریاست کا مرکز تھی جہاں دین و دنیا کے تمام اہم معاملات زیرِ بحث آتے تھے۔ رسول اللہؐ صحابہ کرامؓ کے ساتھ سارے مشورے یہیں کرتے تھے ۔ چاہے وہ سیاسی یا معاشرتی و سماجی امور جیسے نکاح، طلاق، یتیموں کے حقوق، یا زکوٰة کی تقسیم، یا عسکری امور، عدالتی فیصلے، سب معاملات مسجد میں ہی طے پاتے تھے۔ گویا کہ وہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا ایسا مرکز تھا جہاں قیادت، مشورہ، تعلیم، دعوت، قضا اور عبادت سب ایک جگہ مجتمع تھے۔

۴

عام طور پر مسلمانوں میں یہ غلطفہمی در آئی ہے کہ مسجد میں دنیا کی بات نہیں کرنی چاہئے۔ اس کا ازالہ ضروری ہے۔ اس تعلق سے جو ممانعت احادیث میں وارد ہوئی ہے وہ صاف طور پر صرف کاروباری گفتگو کے بارے میں ہے۔ یعنی مسجد میں بیٹھ کر نہ تو خرید و فروخت کرنا چاہئے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی گفتگو کرنی چاہئے۔ اس ممانعت کا تعلق سیاسی، سماجی یا معاشرتی ایشوز پر بحث و مباحثے سے نہیں ہے۔ ہم ذیل میں ان میں سے کچھ احادیث پیش کر دیتے ہیں تاکہ بات واضح ہو جائے۔ 

حضرت علیؓ ابن ابی طالب روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا کہ جب تم کسی کو مسجد میں خرید و فروخت کرتے دیکھو تو کہو ”اللہ تیرے سودے میں نفع نہ دے۔“ اور کسی کو گمشدہ چیز کی پکار لگاتے دیکھو تو کہو ”اللہ تجھے وہ چیز واپس نہ کرے۔“ ترمذی کی اس حدیث کو محدثین نے حسن کے درجے میں رکھا ہے۔

یہاں بھی صرف زبانی مذمت پر اکتفا کرنے کو کہا گیا ہے۔ اسے منع کرنے یا مسجد سے نکال دینے کی کوئی بات نہیں کی گئی۔

عبدللہ ابن مسعود روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا ”آخری زمانے میں کچھ لوگ مسجدوں میں بیٹھ کر دنیا کی باتیں کریں گے۔ ان کے ساتھ نہ بیٹھنا، کیوں کہ اللہ کو ان سے کوئی غرض نہیں۔“ طبرانی کی اس حدیث کو محدثین نے حسن کے درجے میں رکھا ہے۔

یہاں بھی ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے۔ انہیں مسجد سے نکال دینے یا منع کرنے کی کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ 

حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا ”مسجد کو جس مقصد کے لیے بنایا گیا ہے اسی کے لیے رکھو۔ اس میں آواز بلند نہ کرو، اسے گذر گاہ نہ بناؤ، اور اس میں خرید و فروخت نہ کرو۔“ (المستدرک علی الصحیحین)

اس تعلق سے ایک روایت سنن ابن ماجہ میں مذکور ہے جسے عام طور پر محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ روایت اس طرح ہے ”اپنی مسجدوں کو بچوں، پاگلوں، خرید و فروخت، جھگڑوں، اور بلند آوازوں سے بچاؤ۔“

ان احادیث کی صحت کے علاوہ یہ دیکھئے کہ ان ساری حدیثوں میں اصل ممانعت خرید و فروخت کی ہے کہ مسجد کو بازار نہ بنایا جائے اور یہاں بیٹھ کر لوگ سودے نہ طے کرنے لگیں۔ امام طبرانی کی روایت میں جو ”حدیثہم الدنیا“ کے الفاظ ہیں، انہیں بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔

۵

اللہ کی مسجدوں کا مسلمانوں کے مختلف مسالک سے منسوب ہو جانا ہمارے دور کا دوسرا بڑا انحراف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مساجد کو ”بیت اللہ“ اور ”مساجد اللہ“ یعنی اپنا گھر قرار دیا ہے۔ اور شریعت میں وقف مسجد کے قیام کے لیے ایک بنیادی شرط ہے۔ یعنی مسجد کے قیام کے لیے سب سے پہلے اس بات کا اعلان کر دیا جائے کہ زمین کا یہ ٹکڑا اب صرف اللہ کے لیے وقف ہو گیا۔ اور شریعت نے یہ بھی طے کر دیا کہ جو زمین ایک بار وقف کر دی گئی،پھر واپس نہیں لی جا سکتی، بیچی نہیں جا سکتی، منتقل نہیں کی جا سکتی۔ یعنی اب وہ کسی اور کی ملکیت نہیں ہو سکتی۔ مسلمانوں کی حیثیت صرف امین کی ہے۔ اور اللہ کے سارے بندوں کو، جو اللہ کو اپنا خدائے لاشریک مانتے ہوں، اس میں عبادت کا برابر حق حاصل ہے۔

مسجدِ نبوی کے تاسیس کے ساتھ ہی نبی اکرمؐ نے امتِ مسلمہ کو یہ تعلیم دی کہ مسجد کا قیام صرف اور صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہوگا۔ قرآنِ کریم میں سورة التوبہ کی آیت ”لمسجد اسس علی التقویٰ من اول یوم احق ان تقوم فیہ“ (التوبہ: ۱۰۸) اسی اصول کی ترجمانی کرتا ہے۔ اسلام نے کسی بھی ایسی مسجد کو تسلیم نہیں کیا جس کی بنیاد تقویٰ کے بجائے سیاسی مفادات، گروہی تعصب یا معاشرتی برتری پر رکھی گئی ہو، جیسا کہ مسجدِ ضرار کی مثال سے واضح ہوتا ہے۔ نبی اکرمؐ نے مسجد کے لیے اس زمین کو پسند فرمایا جو اللہ کے لیے وقف ہو۔

اس قباحت کو برداشت کرنے کے پیچھے اصل وجہ مسلمانوں کا یہ تصور ہے کہ مساجد مسلمانوں کی ہیں۔ لہٰذا جس طرح مسلمانوں کے مسلک اور فرقے ہوتے ہیں، Schools of thought ہوتے ہیں، ان کے گھرانے، علاقے یا خاندان کے مسلک اور فرقے ہوتے ہیں، Schools of thought ہوتے ہیں، اسی طرح ان کی مسجددوں کے بھی مسلک، فرقے اور Schools of thought ہو سکتے ہیں۔

جبکہ ایسا نہیں ہے۔ مسلک، فرقے اور Schools of thought مسلمانوں کے ہو سکتے ہیں، مسلمانوں کے دیگر ادارے، مثلاً مدارس، جماعتیں اور تحریکوں کے ہو سکتے ہیں۔ لیکن مساجد کو کسی بھی مسلک، فرقے یا School of thought سے منسوب کر دینا اللہ کی مسجدوں کی روح کو مجروح کر دینے کے مترادف ہے۔ کسی مسلک، فرقے، تحریک، جماعت، برادری یا School of thought کا مسجد پر اجارہ قائم کر لینا، جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے، اللہ کی جائداد پر غاصبانہ قبضہ کر لینے کے مترادف ہے۔

سورة الجن میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
وَأَنَّ ٱلۡمَسَٰجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدۡعُواْ مَعَ ٱللَّهِ أَحَدٗا (آیت ۱۸)
ترجمہ : اور یہ کہ مسجدیں اللہ کے لیے ہیں، لہٰذا اُن میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔

سورة التوبہ میں ارشاد ہے:
إِنَّمَا يَعۡمُرُ مَسَٰجِدَ ٱللَّهِ مَنۡ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِ وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَى ٱلزَّكَوٰةَ وَلَمۡ يَخۡشَ إِلَّا اللہ فَعَسَىٰٓ أُوْلَٰٓئِكَ أَن يَكُونُواْ مِنَ ٱلۡمُهۡتَدِينَ (آیت ۱۸)
ترجمہ : اللہ کی مسجدوں کے آباد کار (مجاور و خادم) تو وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ اور روز آخر کو مانیں اور نما ز قائم کریں، زکوٰۃ دیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں انہی سے یہ توقع ہے کہ سیدھی راہ چلیں گے۔

سورة البقرہ میں اللہ تعالہ فرماتا ہے:
وَمَنۡ أَظۡلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَٰجِدَ ٱللَّهِ أَن يُذۡكَرَ فِيهَا ٱسۡمُهُۥ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَآۚ  (آیت ۱۱۴)
ترجمہ : اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کو ن ہو گا جو اللہ کے معبدوں میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور ان کی ویرانی کے در پے ہو؟

سورة التوبہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مَا كَانَ لِلۡمُشۡرِكِينَ أَن يَعۡمُرُواْ مَسَٰجِدَ ٱللَّهِ شَٰهِدِينَ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِم بِٱلۡكُفۡر  (آیت ۱۷)
ترجمہ : مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں در انحا لیکہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت د ے رہے ہیں۔

ان ساری آیتوں میں اللہ رب العزت نے مساجد کی نسبت خود اپنی طرف کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد کے قیام کے لیے زمین کے اس ٹکڑے کا وقف ہونا ضروری ہے۔ یعنی پہلے آپ اپنے مالکانہ حقوق سے دست بردار ہو جائیں، اس کے بعد اس زمین پر اللہ کی مسجد تعمیرکی جائے گی۔

ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے سلسلے میں اس لحاظ سے حساس بنے، اور اللہ کی مسجدوں کو مسلمانوں کی فرقہ وارانہ زنجیروں سے آزاد کرانے کی کوشش کرے۔ کیوں کہ یہ بدعت نہ صرف مسلمانوں کو تقسیم کرتی ہے بلکہ مسجدوں کی جامعیت، وسعت اور اجتماعیت کو بھی محدود کرتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اللہ کی ساری مسجدیں سارے کلمہ گو نفوس کے لیے کھلی رہیں، اور انہیں دوبارہ رسول اللہؐ کی جاری کردہ سنت کے مطابق بحال کیا جائے۔ اور انہیں ہر طرح کے تعصب، نفرت، اور گروہی وابستگی سے پاک رکھا جائے تاکہ وہ حقیقی معنوں میں ”بیوت اللہِ“ کہلانے کی مستحق بن سکیں۔ 

جب آپ اللہ کی مسجدوں کو کسی خاص مسلک، فرقہ یا گروہ سے منسوب کر دیتے ہیں تو غیر محسوس انداز میں باقی مسالک، فرقے یا گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو یہ  پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ یہ جگہ ان کے لیے نہیں ہے۔ وہ اپنے آپ کو اجنبی، غیر متعلق یا ناپسندیدہ محسوس کرنے لگتے ہیں، جو عملاً انہیں مسجد سے دور کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ کی مسجد کو کسی مخصوص مسلک یا فرقہ کا قلعہ بنانے کا مطلب ہے کہ آپ اللہ کے گھر پر غیر شرعی قبضہ کر رہے ہیں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے بجائے تفرقے کو فروغ دے رہے ہیں۔

یہاں تک کہ بعض مقامات پر اللہ کی مسجدوں کے باہر اس قسم کے بورڈ دیکھنے کو ملتے ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ مسجد فلاں مسلک یا جماعت کی ہے، اور فلاں مسلک یا عقیدے کے لوگ یہاں نہ آئیں۔ یہ اگرچہ بہت شاذ ہے، لیکن اتنا قبیح ہے کہ اس کا تذکرہ ضروری ہے۔ لوگوں کا یہ عمل نہایت افسوسناک اور خطرناک ہے، کیوں کہ اللہ کی مسجدوں پر مسلمانوں کا مالکانہ حق ہے ہی نہیں۔ وہ یہ فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں ہی نہیں کہ مسجدوں میں کس قسم کے کلمہ گو تشریف لائیں، اور کس قسم کے کلمہ گو دور رہیں۔ یہ طرزِ عمل قرآن کی اس مذمت کے زمرے میں آتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مسجدِ ضرار کا ذکر کیا ہے (سورة التوبہ، آیت: ۱۰۷)۔ ایسی مسجدوں کے قرب و جوار میں جو اہل ایمان رہتے ہوں، ان پر لازم ہے کہ وہ ان مسجدوں کے ذمہ داران کو اس پر مجبور کریں کہ وہ اس بدعت اور تحریف سے بعض آ جائیں تاکہ قہرِ خداوندی سے لوگ محفوظ رہ سکیں۔

سورة البقرة میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
وَمَنۡ أَظۡلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَٰجِدَ ٱللَّهِ أَن يُذۡكَرَ فِيهَا ٱسۡمُهُۥ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَآۚ أُوْلَٰٓئِكَ مَا كَانَ لَهُمۡ أَن يَدۡخُلُوهَآ إِلَّا خَآئِفِينَ لَهُمۡ فِي ٱلدُّنۡيَا خِزۡيٞ وَلَهُمۡ فِي ٱلۡأٓخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٞ (آیت ۱۱۴)
ترجمہ : اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کو ن ہو گا جو اللہ کے معبدوں میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور ان کی ویرانی کے در پے ہو؟ ایسے لوگ اس قابل ہیں کہ ان عبادت گاہوں میں قدم نہ رکھیں اور اگر وہاں جائیں بھی تو ڈرتے ہوئے جائیں۔ ان کے لیے تو دنیا میں رسوائی ہےاور آخرت میں عذاب عظیم۔

ائمہ، علماء اور خطباء کو چاہئے کہ اللہ کی مسجدوں میں اپنے مسالک اور فرقوں کی تبلیغ سے پرہیز کریں۔ اللہ کی مسجدوں میں مسلکی گفتگو کرنا، خواہ وہ خطبے کے دوران ہو یا درس و تدریس میں، نہ صرف امت کے درمیان دوریاں پیدا کرتا ہے بلکہ اللہ کی مسجدوں کی وحدت، جامعیت اور تقدس کو بھی مجروح کرتا ہے۔ اللہ کی مسجدوں کے منبر اللہ کے کلام اور رسول اللہؐ کی سنت کے ابلاغ کے لیے ہیں۔ اس لیے ائمہ و خطباء کو چاہئے کہ وہ کتاب و سنت کی عمومی تعلیمات پر توجہ دیں، اور امت کو مشترکہ بنادوں پر جمع کرنے کی کوشش کریں۔

اللہ کی مسجدوں میں مسلکی اختلافات یا فقہی ترجیحات کے موضوعات پر عوام کے سامنے گفتگو کرنا نہایت نامناسب اور نقصاندہ عمل ہے۔ یہ مسائل علمی نوعیت کے ہوتے ہیں، جن پر بات صرف علمائے کرام کے ما بین علمی مجالس یا علمی اداروں میں ہونی چاہئے جہاں تحقیق، تفہیم اور احترام کا ماحول ہو۔ عام لوگوں کو ان اختلافات میں الجھانا نہ صرف ان کے فہمِ دین کو مشوَّش کرتا ہے بلکہ فرقہ واریت، گروہ بندی، اور باہمی نفرت کو جنم دیتا ہے۔ ایسے ائمہ، علماء اور خطباء جو دانستہ طور پر مسجد کے منبر کو ان باتوں کے لیے استعمال کرتے ہیں، ان کے بارے میں مجھے اندیشہ ہے کہ وہ قیامت کے دن سخت مشکل میں ہوں گے۔ اللہ ان سے پوچھے گا کہ تم نے میری مسجد کو میرے دین کے بجائے اپنے مسلک اور فرقے کی تبلیغ کا مرکز کیوں بنایا؟

اللہ کی مسجد کا قیام ایک عظیم عمل ہے۔ لیکن اگر کسی مسجد کے قیام کا مقصد اللہ کی رضا اور بندوں کی ہدایت کے بجائے گروہی مفادات اور فرقہ وارانہ تعصب ہو، تو یہ عمل نیکی کے بجائے فساد کا سبب بن جاتا ہے۔ کسی علاقے میں موجود اللہ کی ایک مسجد کو محض اس وجہ سے مسترد کر دینا کہ وہ دوسرے مسلک کی ہے، اور پھر اپنے مسلک کی الگ مسجد بنانے کی کوشش کرنا مسجدِ ضرار کے قیام جیسا ہے، جس کی سخت مذمت قرآن نے کی ہے۔

جو افراد اس تفریق پر مبنی مسجد کی تعمیر میں حصہ لیتے ہیں، چاہے وہ زمین مہیا کرانے والے ہوں، چندہ جمع کرنے والے ہوں، یا دیگر انتظامات میں حصہ لینے والے ہوں، انہیں نہایت سنجیدگی کے ساتھ اپنے ایمان کا محاسبہ کرنا چاہئے۔ اللہ کی مسجد اللہ کے دین کا مرکز ہوتی ہے۔ اسے کسی مسلک یا فرقے کی نمائندہ عمارت کی شکل میں کھڑا کرنا ایک مذموم عمل ہے۔ اگر کوئی مسجد صرف اس لیے بنائی جا رہی ہے کہ ”یہ ہماری“ ہے، تو اس کی بنیاد تقویٰ پر نہیں بلکہ تعصب پر ہے، اور ایسی مسجدوں کا قیام باعثِ ثواب ہونے کے بجائے باعثِ احتساب ہو سکتا ہے۔ 

جس طرح اللہ رب العزت کی ذات ہر قسم کی گروہ بندی، فرقہ پرستی، مسلکی تعصب سے پاک اور ماوراء ہے، اسی طرح اللہ کے گھروں کو بھی ان تمام تنگ نظریوں اور محدود دائرہ بندیوں سے پاک ہونا چاہئے۔ آپ اپنے ذاتی گھر کے دروازے پر بے شک اختیار رکھتے ہیں کہ کسے اندر آنے دیں اور کسے روکیں، لیکن مسجد چونکہ اللہ کا گھر ہے، اس لیے اس میں کسی کو روکنے، کسی کو ناپسندیدگی سے دیکھنے یا کسی کے آنے پر ناک بھوں چڑھانے کا کسی کو حق نہیں۔ اللہ کی مسجد کو محدود کرنا یا اسے مخصوص افراد کے لیے مخصوص سمجھنا، دراصل اللہ کے گھر پر ناحق قبضہ جمانے کے مترادف ہے، جو ایمان کے خلاف اور اللہ کی نافرمانی ہے۔

نئی مسجد کا قیام صرف اس وقت ہونا چاہئے جب کہ اس کے لیے معاشرتی یا دینی ضرورت داعی ہو۔ جیسے پرانی مسجد میں نمازیوں کی گنجائش نہ رہ گئی ہو اور توسیع بھی ممکن نہ ہو، یا کسی نئی آبادی یا بستی میں مسجد موجود نہ ہو۔ اور اس نئی مسجد کو مسلکی شناخت سے بالاتر رکھ کر قرب و جوار کے تمام اہلِ ایمان کے لیے معاشرتی و دینی مرکز بنایا جانا چاہئے۔ 

اسی طرح مسجد میں امام، مؤذن یا خادم جیسے اہم ذمہ داریوں کے لیے کسی شخص کا انتخاب کرتے وقت مسلک کو معیار بنانا دین کے بنیادی اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔ اللہ کی مسجد میں خدمات انجام دینے والوں کا معیار وہی ہونا چاہئے جو دین نے مقرر کیا ہے: یعنی، تقویٰ، علم، حسنِ اخلاق۔ یہاں تک کہ فنِّ خطابت اور قرآن کی خوش الحانی کو بھی معیار بنایا جا سکتا ہے، لیکن مسلک کو نہیں۔ کسی کو محض اس لئے رد کر دینا کہ وہ ”ہماری مسلکی شناخت“ سے تعلق نہیں رکھتا، یا محض مسلک کی بنیاد پر کسی کو امام و مؤذن مقرر کرنا، دراصل مسجد کو فرقہ واریت کے شکنجے میں جکڑنا ہے۔

۶

عورتوں کو اللہ کی مسجدوں سے کلیاتاً محروم کر دینا اللہ کی مسجدوں کے سلسلے میں مسلمانوں کا تیسرا بڑا انحراف ہے۔ اللہ کی مسجدیں اللہ کی عبادت، قرآن کی تعلیم، باہمی مشورے اور دیگر معاشرتی حرکت و عمل کا مرکز ہیں۔ کسی بھی معاشرے کی نصف آبادی کے ان سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

اللہ کے رسول کا فرمان ہے:
 ”لا تمنعوا إماء الله مساجد الله“۔ (بخاری، مسلم)
ترجمہ : تم اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو۔

ایک دوسری روایت میں ”ولكن ليخرجن وهن تفلات“ کے الفاظ زائد ہیں۔ شيخ محمد الحسن الددو الشنقيطي نے اسکی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے ”غير متعطرات أو متزينات“ اور ”والتفلة معناه: المرأة التي لا تتعطر ولا تتزين۔“ یعنی جب خواتین مسجد جائیں تو خوشبو نہ لگائیں اور بن سنور کر نہ جائیں۔ ظاہر ہے اس حکم کا مخاطب خواتین ہیں جس کا اہتمام انہیں کرنا ہے۔

اللہ کے رسول نے عورتوں اور مردوں کے صفوف کے تعلق سے احکام صادر فرمائے (مسلم: ۴۴۰)،  انہیں رات کے اوقات میں بھی مسجد آنے کی اجازت دینے کا حکم دیا (مسلم: ۴۴۲، بخاری: ۸۶۵)، اللہ کے رسول نے یہ طریقہ جاری فرمایا کہ فرض نماز کے بعد عورتیں، جن کی صف پیچھے ہوتی تھی، اٹھ کر پہلے چلی جاتیں (بخاری ۸۶۶)، جو عورتیں چھوٹے بچوں کو لے کر مسجد میں حاضر ہوتیں ان کی سہولت کا لحاظ کرتے ہوئے رسول اللہؐ نماز کئی بار مختصر کر دیتے (بخاری: ۷۰۹، مسلم ۴۷۰)۔ اللہ کے رسول نے یہ طریقہ بھی سکھایا کہ عورتیں مردوں کے سجدے سے سر اٹھانے کے بعد سجدے سے سر اٹھائیں (مسلم: ۴۴۱، بخاری: ۳۶۲ )۔ ابوداؤد کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجدِ نبوی میں عورتوں کے داخل ہونے کے لیے ایک الگ دروازہ تھا۔ محدثین میں البتہ اس تعلق سے اختلاف ہے کہ آیا یہ تخصیص اللہ کے رسولؐ نے کی تھی یا حضرت عمرؓ نے۔ (رقم ۵۷۱)

اوپر کی تصریح سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے اس بارے میں جو سنت جاری فرمائی تھی اس کے مطابق خواتین مسجد میں حاضر ہوتی تھیں، انہیں مسجد میں آنے کے آداب (خوشبو اور سجنے سنورنے سے اجتناب) سکھائے گئے تھے، نظروں کی حفاظت کے لیے انہیں سجدے سے سر اٹھانے میں توقف کرنے کو کہا گیا تھا، مردوں کو اس بات کی تاکید کی گئی کہ وہ عورتوں کو مسجد جانے سے نہ روکیں۔ یہاں تک کہ ان کے لیے مخصوص دروازے کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔

فتنے کے خوف سے عورتوں کو اللہ کی مسجدوں سے دور رکھنے کا خیال کوئی نیا نہیں ہے۔ اس تعلق سے عبد اللہ بن عمرؓ اور ان کے فرزند کے درمیان کی وہ گفتگو قابلِ ذکر ہے جو صحیح بخاری (۸۹۹)، صحیح مسلم (۴۴۲) کے علاوہ ترمذی اور مسند احمد میں بھی مذکور ہے۔ روایت کے مطابق عبد اللہ بن عمر نے کہا کہ اللہ کے رسول نے فرمایا ہے ”تم عورتوں کو رات میں مسجد جانے کی اجازت دے دیا کرو۔“ اس پر ان کے فرزند نے کہا ”قسم اللہ کی، ہم انہیں اس کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اسے فتنے کا ذریعہ بنائیں۔ اللہ کی قسم، ہم انہیں اس کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے۔“ اس پر حضرت عبداللہ بن عمر سخت برہم ہوئے اور فرمایا ”میں کہتا ہوں کہ اللہ کے رسول نے کہا ہے: تم انہیں اجازت دو۔ اور تم کہتے ہو کہ: ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے“۔

گویا کہ اپنے آخری جملے میں حضرت عبد اللہ بن عمر نے حجت ہی تمام کر دی کہ سوال فتنے کا نہیں ہے، سوال سنتِ نبویؐ کا ہے۔ اللہ کے رسول نے اجازت دینے کا حکم دیا ہے تو ہمیں اجازت دینی ہے۔ باقی رہی بات فتنے کی تو اس کے سدِّ باب کے لیے راستے تلاش کئے جائیں گے۔

اللہ کے رسول کی اس سنت کے برخلاف مسلمانوں نے خواتین کو مسجد میں آنے سے عملاً روک رکھا ہے۔ مسجد میں ان کے لیے نہ تو الگ وضو خانہ ہوتا ہے، اور نا ہی داخلی دروازہ، اور نہ ہی نماز ادا کرنے لیے ایسی جگہ جہاں وہ پردہ کا اہتمام کرتے ہوئے نماز ادا کر سکیں، اور تعلیم اور مشورہ وغیرہ میں حصہ لے سکیں۔ شاپنگ مال میں خواتین کے لیے الگ ریسٹ روم ہوتے ہیں، فیڈنگ روم ہوتے ہیں۔ ہم جب اسکول کھولتے ہیں تو بچیوں کے لیے الگ کلاسز سے لے کر الگ کیمپس تک کا اہتمام کرتے ہیں۔ لیکن اللہ کی مسجدوں کی تعمیر اور انتظام کے وقت پتہ نہیں کیوں ہم اسے ضروری نہیں سمجھتے۔

مسلمانوں کو چاہئے کہ مسجد کی عمارت تعمیر کرنے کے وقت سے ہی اس بات کا خیال رکھیں کہ یہاں پر دو مختلف صنف کے لوگ آئیں گے جنہیں ایک دوسرے سے پردہ کرنا ہے۔ لہٰذا خواتین کے لیے الگ وضو خانہ اور داخلے کا دروازہ تعمیر کیا جائے۔ جن مسجدوں کی تعمیر ہو چکی ہے وہاں بھی انجینئر سے مشورہ لے کر ضروری تبدیلی کر دینی چاہئے تا کہ خواتین مکمل پردے کے اہتمام کے ساتھ اللہ کی مسجدوں سے فیض حاصل کر سکیں۔

۷

اللہ کی مسجدوں کو اللہ کے کلام کی تعلیم کا مرکز ہونا چاہئے۔ یہ اللہ کے رسول کی جاری کی ہوئی وہ سنت ہے جسے ہم نے بالاجماع ترک کر رکھا ہے۔ اللہ کی مسجدوں کے سلسلے میں یہ ہمارا چوتھا انحراف ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم اور اس کے فہم و تدبر کے لیے سب سے موزوں جگہ مسجد ہے۔ لہٰذا لازم ہے کہ ہم اللہ کی مسجدوں کو قرآن کی تعلیم اور دعوت  کا مرکز بنائیں، درس قرآن کی محفلیں سجائیں، اور بچوں اور بڑوں کے لیے کتاب اللہ کے فہم و تدبر کا اہتمام کریں تاکہ اللہ کی مسجدوں کے اس رول کو بحال کیا جا سکے جو اللہ کے رسول نے طے کیا تھا۔

اللہ کے رسول نے کہا ہے کہ جب اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں کوئی گروہ جمع ہوتا ہے، اور وہ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں، اور اس کا درس و تدریس کرتے ہیں، تو اللہ کی سکینت نازل ہوتی ہے اور اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کے درمیان ان کا ذکر کرتا ہے۔ (صحیح مسلم، ۲۶۹۹)

ابن ماجہ کی ایک حدیث کا، جسے امام البانی نے صحیح قرار دیا ہے، ترجمہ ہے ”جو شخص میری اس مسجد میں صرف بھلائی حاصل کرنے یا سیکھنے یا سکھانے کے لیے آتا ہے، تو وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے درجے میں ہوتا ہے۔“

یہ حدیث بھی اس بات کو واضح کرتی ہے کہ مسجد تعلیم و تربیت کا مرکز ہوتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے علم دین کے چشمے پھوٹنے چاہئیں۔

۸

اس سلسلے میں کچھ گزارشات ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں۔ اہل فکر حضرات کو چاہئے کہ محلے کی مسجد میں ان کا اہتمام کریں۔

اللہ کی مسجدوں میں قرآن کی تعلیم کے سلسلے میں کم از کم تین شعبوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

الف: ناظرہ قرآن اور تجوید کی تعلیم

ابتدائی عمر کے بچوں کے لیے قرآنی تعلیم کا پہلا مرحلہ عربی حروفِ تہجی اور تلفظ کی مشق ہے۔ اس مرحلے میں تجوید کے اصولوں کی عملی تربیت دی جائے تاکہ وہ کم عمری سے ہی صحیح طرح سے تلاوت کر سکیں۔ یہ انتظام بڑوں کے لیے بھی ہونا چاہئے اگر قرب و جوار میں ایسے لوگ موجود ہوں۔

ب: قرآن فہمی کے کلاسیز

اللہ کی مسجدوں میں ہر عمر اور سطح کے لوگوں کے لیے قرآن فہمی کے کلاسیز کا انعقاد ہونا چاہئے۔ چھوٹے بچوں اور بچیوں، نوعمر لڑکوں، نو عمر لڑکیوں، مردوں، عورتوں، اور بوڑھے اور بوڑھیوں کے لیے الگ الگ کلاسیز کا اہتمام ہونا چاہئے۔ ان کے ذہنی سطحوں اور وقت کا لحاظ کرتے ہوئے کورسیز متعین کرنے چاہئے۔ مثلاً نوعمروں کے لیے ترجمہ اور بڑوں کے لیے الفاظ کی تحقیق، وغیرہ۔

ج: حفظِ قرآن کی کلاسیز

حفظِ قرآن کی خواہش رکھنے والے لوگوں کے لیے بھی کلاسیز کا اہتمام ہونا چاہئے۔ اس میں پردے کا اہتمام کافی ہوگا۔ عمر کے لحاظ سے کسی تفریق کی ضرورت نہیں۔

اگر ہم اس طرح کا ایک جامع قرآن کی تعلیم کا نظام اللہ کی مسجدوں میں قائم کر سکیں تو مسجدیں ایک بار پھر اللہ کے رسول کی جاری کی ہوئی سنت کے مطابق علم قرآن کا گہوارہ بن سکیں گی۔ ان شاء اللہ!

۹

ان بنیادی اور ناگزیر اقدام کے علاوہ قرآنی علوم و افکار کو ترویج دینے کے لیے ذیل میں کچھ گزارشات پیش کی جا رہی ہیں۔

الف: قرآنِ کریم کی تفسیر اور تدبر کے حلقے
عوام کے اندر قرآنی بصیرت و حکمت کو رائج کرنے کے لیے مسجدوں میں ایسے حلقے منعقد ہونے چاہئے جہاں قرآن کی اچھی سمجھ رکھنے والے لوگ جمع ہوں اور قرآنی علوم کو عوام کی موجودگی میں موضوعِ گفتگو بنائیں۔ 

ب: موضوعاتی قرآن کلاسیز
اسی طرح قرآن کے مضامین کو عصری تقاضوں کے مطابق سمجھنے کے لیے موضوعاتی کلاسیز مؤثر ہوتی ہیں۔ مثلاً اخلاق، عدل و انصاف، والدین اور اولاد کے حقوق، ازدواجی تعلقات، معیشت، سیاست اور اجتماعی معاملات جیسے موضوعات پر قرآن کی روشنی میں تعلیم دی جائے۔

ج: علمِ قرآن کے ماہرین کے سیشنز
علومِ قرآن کے ماہرین کے لیکچرز کا انعقاد علومِ قرآن کی ترویج میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے لیے اپنے علاقے کے ماہرینِ علومِ قرآن کو دعوت دینا چاہئے اور باہر سے بھی مدعو کرنا چاہئے۔

قرآن کی تعلیم کے لیے اللہ کی مسجدوں کو ضروری سہولیات سے لیس ہونا چاہئے۔ 

۱۔ قرآن کی تعلیم کے لیے مختلف عمروں، تعلیمی پسِ منظر، اور ذہنی سطحوں کو پیشِ نظر رکھ کر الگ الگ نصاب مرتب کیے جائیں۔ 

۲۔ ہر نصاب کے لیے صلاحیت مند اساتذہ کا تقرر کیا جائے۔

۳۔ مسجدوں میں لائبریری کا ہونا نا گزیر ہے تاکہ لوگ سکون کے ساتھ اپنی سہولت کے مطابق قرآن، علوم قرآن سے متعلق کتب اور تفاسیر کا مطالعہ کر سکیں۔  یہ لائبریریاں جامع ہونی چاہئے، نہ کہ کسی School of thought کے پیروکار۔ اس میں مختلف مکاتبِ فکر کی معتبر تفاسیر، لغات، حدیث کی کتب اور جدید دینی تحقیقی مواد شامل ہو تاکہ مطالعے کا دائرہ وسیع ہو اور فہم میں گہرائی پیدا ہو۔

۴۔ مسجدوں میں White board سے لے کر پراجیکٹر تک کا انتظام ہونا چاہئے۔ اسی طرح اچھے ساونڈ سسٹم کا بھی انتظام ہونا چاہئے تاکہ کوئی کسی لیکچر یا سیشن کو آن لائن نشر کرنا چاہے تو کر سکے۔

اللہ کی مسجدوں کے سلسلے میں آخری نبی محمدؐ نے جو سنت جاری فرمائی تھی اس کے مطابق مسجدوں کو اسلامی معاشرت کا مرکز اور تعلیمِ قرآن کا گہوارہ ہونا چاہئے تھا۔ لیکن ہم نے اس سنت کو چھوڑ کر اللہ کی مسجدوں کو نمازوں تک محدود کر دیا، انہیں مسلک کی زنجیروں میں جکڑ دیا، عورتوں کے مسجد تشریف لانے کو عملاً ممنوع قرار دے دیا ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم اس انحراف کا علاج کریں اور اللہ کی مسجدوں کو مسلک کی زنجیروں سے آزاد کریں، وہاں خواتین کے لیے محفوظ جگہ کا انتظام کریں اور انہیں علمِ قران کا مرکز بنائیں۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں دین کو سمجھنے اور اس کے مطابق اپنے افکار و اعمال کو درست کرنے کی توفیق حاصل ہو!


(قرآن کی آیتوں کے تراجم امام مودودیؒ کی تفسیر تفہیم القرآن سے ماخوذ ہیں)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے